- Home
- Blog
Blog
Add Your Heading Text Here
میڈیا لٹریسی کی ضرورت ومعنویت
منورسلطان ندوی
میڈیاکاکام کبھی صرف خبررسانی تک محدود نہیں رہا،تاہم ماضی میںابلاغی ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے اس کادائرہ اثربھی محدودتھا،لیکن انفارمیشن ٹکنالوجی نے پوری دنیاکوایک عالمی گائوں میں تبدیلی کردیاہے،فاصلے سمٹ گئے ہیں،اورہرانسان تک دنیاکے کونے کونے سے خبریں پہونچ رہی ہیں ، ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے صرف معلومات اور خبروں کی ترسیل کوآسان نہیں بنایابلکہ اس سے آگے بڑھ کر ہرفرد کوخودایک صحافی بنادیاہے،اب وہ صرف میڈیاکاصارف ہی نہیں بلکہ ایک فعال میڈیاانفلوئنسربھی ہے،اس تناظرمیں میڈیاہماری انفرادی واجتماعی زندگی کے ہر گوشہ میں ایسادخیل ہوگیاہے کہ خلوت ہویاجلوت کاکوئی لمحہ ایسانہیں ہے جہاں میڈیا اثراندازنہ ہوتاہو۔
ماضی میں میڈیاکے چندادارے ہوتے تھے،اور سننے اوردیکھنے والے لاکھوں، اب ہرفردبذات خودایک میڈیاپلیٹ فارم ہے،اس بدلتی ہوئی صورت حال نے میڈیاکی طاقت ناقابل یقین حدتک بڑھادیاہے،اب ملکوں کے درمیان جنگیں صرف میدان میں نہیں بلکہ میڈیااور انفارمیشن کی سطح پربھی لڑی جاتی ہیں،حالیہ ایران اسرائیل جنگ کو انفارمیشن وارقراردینااس کی واضح مثال ہے۔
میڈیاکی اثرانگیزی کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف معلومات اور خبروں تک محدود نہیں رہا،بلکہ سماج میں مخصوص طرزفکر،طرزمعاشرت،اورتہذیبی رجحانات کو فروغ دینے کاموثرترین ذریعہ بن چکاہے،وہ باتیں جس کے لئے تعلیم وتربیت کی ضرورت تھی،آج میڈیا کے ذریعہ سطحی اندازمیں عام کی جاری ہیں، تفریح اور انٹرٹینمنٹ کے نام پرایسے مواد کو فروغ دیاجاتاہے جوناظرین کے ذوق،ترجیحات حتی کہ اقدار کو تبدیل کررہاہے،عام انسان کی میڈیا سے اس درجہ وابستگی کے باعث آج میڈیا ایک ایسی ضروت بن چکاہے کہ اس کے بغیرعام انسان کو سکون میسرنہیں آتا۔
موجودہ دورکی میڈیاصرف خبرہی نہیں دیتابلکہ خبریں بناتابھی ہے،بیانیہ تشکیل دیتاہے،قارئین و ناظرین کی ذہن سازی اپنے مخصوص ایجنڈاکے تحت کرتاہے،اسمارٹ فون ،ٹیبلٹ اور دوسرے ڈیجیٹل ڈیوائسیزکے ذریعہ ہرفردعالمی نیٹ ورکس سے جڑاہواہے،خبروں کاسیلاب اس تک ہرلمحہ پہونچتارہتاہے،اورچھوٹی خبریں چند لمحوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
ان حالات میں صحیح اور غلط ،سچ اور جھوٹ ،حقیقت اور فریب میں تمیز کرناعام انسان کے لئے مشکل ہوچکاہے، ایک جھوٹی خبرکی بنیادپرلوگ بڑے فیصلے کربیٹھتے ہیں،اور جب تک اس خبرکی سچائی سامنے آتی ہے ناقابل تلافی نقصان ہوچکاہوتاہے۔
میڈیاکی اس بے پناہ طاقت اور وسیع وہمہ گیراثرات کے پس منظر میں فیک نیوز،جھوٹی معلومات کی یلغار نے باشعورانسانوںکی بھی حیران وششدر کردیاہے،معروف کنیڈین ماہرابلاغ مارشل میکلوہن کہتے ہیں:
میڈیاصرف پیغام پہونچاکاذریعہ نہیں،بلکہ خودایک پیغام ہے جو سماج کی ساخت اور سوچ پرگہرااثرڈالتاہے۔
اسی طرح ایک برطانوی صحافی لکھتے ہیں:
جب میڈیا بے ضمیر ہوجائے توجھوٹ ،پروپیگنڈا اور تعصب سچ اور انصاف پر غالب آجاتے ہیں۔
مولاناآزاداردونیشنل یونیورسیٹی حیدرآباد میں خصوصی لکچردیتے ہوئے ٹیساجولس (صدرسنٹرفارمیڈیالٹریسی،کیلیفورنیاامریکہ)نے کہاکہ ’’جب کوئی پراڈکٹ مفت دستیاب ہوجائے توسمجھ لیں صارف خود ہی اس کے پروڈکٹ ہیں،ایک سادہ ساآٹوموبائل اب مواد جمع کرنے کی مشین بن گئی ہے، میڈیا لٹریسی ایک عالمی چیلنج ہے۔‘‘
اس صورت حال میں خبروں کاصحیح فہم،میڈیاکے ذریعے پروسے جانے والے مواد کوپرکھنے کی صلاحیت اور اس کے مضراثرات سے بچنے کے طریقوں کوجانناضروری ہے،میڈیالٹریسی کامقصد یہی ہے،خبروں اور میڈیائی مواد کے حوالے سے تنقیدی فہم پیدا کرنااور اس سے آگے بڑھ کر صحیح مواد تخلیق کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانامیڈیالٹریسی کابنیادی فریضہ ہے۔
آج کے میڈیا میں اکثر خبریں محض معلومات نہیں،بلکہ کسی خاص سیاسی،مذہبی،یامعاشی ایجنڈے کے تحت تیار کی جاتی ہیں،بسااوقات تخلیق اورتجربہ کے نام پرجوباتیںبلندآہنگی کے ساتھ کہی جاتی ہیں وہ محض چند ذہنوں کی اختراع ہوتی ہیں،جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،اس لئے ان ایجنڈوںکو سمجھنے اور ان کاادراک حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرناوقت کاتقاضا ہے۔
میڈیالٹریسی نہ صرف خبروں کافہم پیداکرے گی بلکہ معتبرذرائع کی پہچان ،تنقیدی سوچ،اور سنجیدہ رویے کو فروغ دے گی،ایک مفکرنے کہا کہ میڈیاایک دودھاری تلوارہے،یاتووہ شعورپیدا کرتاہے یاجہالت کوفروغ دیتاہے،اور ان دونوں میں تمیزصرف میڈیا لٹریسی سے ہی ممکن ہے۔
مسلم سماج میں میڈیالٹریسی کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے،کیونکہ یہاں نوجوان اور کم تعلیم یافتہ افراد کومذہبی منافرت یاجذباتی خبروں کے ذریعے گمراہ کرناآسان ہے،ان کے ذہنوں کو میڈیا کے سحرسے بچانانے کے لئے باضابطہ رہنمائی اور تربیت ضروری ہے۔
میڈیالٹریسی ایک جامع اصطلاح ہے،جس میں انفارمیشن لٹریسی اور ڈیجیٹل لٹریسی بھی شامل ہے،اس طرح تین جہات سے تربیت کی ضرورت ہے،بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں اس میدان میں ابھی تک خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے،مگراب اس پہلوسے غفلت برتنابڑے نقصانات کاباعث بن سکتاہے۔
دنیاکے کئی ممالک میں میڈیالٹریسی کو نصاب کاحصہ بنایاجاچکاہے ہے،ہمارے یہاں بھی کم از کم ورکشاب اورسمینارکے ذریعہ اس سمت میں پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔
ملک کا باشعورشہری بننے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوری اقدار،حقوق وفرائض اورزمینی حقائق سے آگاہی ہو، میڈیاکاشعوری فہم جمہوریت کے بقاء کے لئے ضروری ہے ،اگرمیڈیاکی وسعت اور اس کے دوررس اثرات کو سامنے رکھاجائے تومیڈیاکاشعورپیداکرناایک بڑاچیلنج ہے،مگراسے قبول کیا جانا چاہئے ۔
یہ بھی سمجھناضروری ہے کہ میڈیاادارے اصلاح یاانقلاب کے لئے نہیںبلکہ خالص تجارتی بنیادوں پرقائم ہوتے ہیں، ان کااصل مقصد نفع کماناہوتاہے،اس لئے ان کاایجنڈا انسانی فلاح کے بجائے تجارتی مفادات کے گرد گھومتاہے،انہیں کن خبروں کو نشر کرناہے اور کن کو نہیں،یہ فیصلہ صحیح عوامی مفاد یاجمہوری تقاضوںکی بنیاد پرنہیںبلکہ ان کمپنیوں کے نفع اور سرمایہ کاروں کے مفاد کی روشنی میں کیاجاتاہے،اشتہارات دینے والی کمپنیاں اور حکومتی دبائو ان پالیسیوں پراثراندازہوتے ہیںجن کے واضح اثرات الیکٹرانک میڈیامیں دیکھے جاسکتے ہیں۔
لہذا میڈیا کی طاقت اور کردار کوسمجھنے کے لئے میڈیا لٹریسی ایک ناگزیرضرورت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عورت کی خودمختاری ۔غوروفکرکے چندپہلو
منورسلطان ندوی
گذشتہ دنوں دبئی میں ایک کانفرنس کاانعقاد ہوا،جس کو ’’اماراتی وومن کانفرنس 2025‘‘کانام دیاگیا،یہ کانفرنس اماراتی خواتین کی ذہانت،اور کردار کے حوالے سے تقاریر،ڈسکشن اور ایوارڈ پرمشتمل تھی،خواتین کوسماج میں مقام دلانے اور مرد کے شابہ بہ شانے لانے کے لئے اس طرح کی کانفرنسیں اکثرہوتی رہتی ہیں، اس طرح کی کانفرنسوں کامقصد خواتین کی آزادی، اورسماجی ومعاشی اعتبار سے ان کوخودمختاربنانے کی دعوت دیناہوتاہے۔
عورت کی خودمختاری (Women Empowerment)کاموضوع نیانہیں ہے،یہ ایک علمی وفکری موضوع ہے،اور ایک سماجی مسئلہ بھی ،ساتھ ہی ایک معاشرتی چیلنج بھی،ان پہلوئوں کے ساتھ یہ ایک خوبصورت اور پرفریب نعرہ بھی ہے،اس سے متعلق چند اہم پہلوئوں پر سنجیدگی سے غورکرنا ضروری ہے۔
خودمختاری کامطلب ہے کہ عورت کواپنی ذاتی زندگی،اور اپنے معاملات میں فیصلہ کامکمل اختیارہو،وہ اپنے معاملات میں کسی کے تابع نہ رہے،دراصل اس سے مقصود مردوعورت کی صنفی برابری ہے ،تاکہ عورت مردکے شابہ بہ شانہ چل سکے،عورت اپنے فیصلوں میں بااختیارہوگی تووہ سماجی اور معاشی میدان میں بہترین کرداراداکرے گی،اور اس طرح سماج اور ملک کی ترقی زیادہ ہوگی۔
مغرب میں فیمنزم کی جومختلف لہریں اٹھیں انہیں میں عورت کی آزادی کاتصوربھی ہے،جوپہلے ذہنی وفکری آزادی اور قانونی مساوات تک محدودتھا،بعد میں تمام سماجی ومذہبی حدودسے آزادی اس اس میں شامل ہوگئی۔
مغرب کا تصورایک ردعمل کے طورپرابھرا،وہاں کامعاشرہ جن حالات سے دوچارتھا،اور کلیساکی زنجیروں میں وہ جس طرح جکڑے ہوئے تھے اس پس منظر میں فیمینزم کی تحریک اٹھی، جس نے مذہبی اور سماجی پابندیوں کے خلاف بغاوت کی اور عورت کو آزادی دلانے کی کوشش کی ۔
آزادی نسواں کی تحریک کے نتیجہ میں مغرب کلیساکی زنجیرسے آزادضرور ہوگیا،مگراس آزادی کی جوقیمت چکانی پڑی وہ جگ ظاہرہے،سماجی ومعاشرتی نظام کابکھرائو،معاشی آزادی کے نام پرعورت پراپنی اور اپنے بچوں کی معاشی ذمہ داریاں، مرد وعورت میں مسابقت اور کشمکش،جنسی آزادی کے نام پراخلاقی انارکی،ناجائزبچوں اور بغیر باپ کے بچوں کی بہتات،سماجی رشتوں کے کمزورہونے کے نتیجہ میں تنہائی،ڈپریشن،اور ذہنی دبائو میں بے تحاشہ اضافہ،اکیلی ماں (Single Parenting) کے نتیجہ میں سماجی مسائل اسی تحریک کے غیرمعتدل اور غیرفطری سرگرمیوں کاخمیازہ ہے۔
اسلام نے روزاول سے عورت کوعزت دی ،اوراس کواس کاصحیح مقام عطاکیا،قرآن واحادیث میں تفصیلات موجود ہیں کہ عورت کو کس کس طرح کے حقوق دئے گئے ہیں،اورکس طرح انہیں خودمختارعطاکی گئی ہے۔
زندگی کے زیادہ ترمعاملات میں عورت ومردکی حیثیت برابر ہے،یعنی دونوں کے درمیان مساوات ہے،کسی طرح کاصنفی امتیازنہیں ہے،اسلام میںعورت کودینی،سماجی،معاشرتی،معاشی ہرطرح کے حقوق دئے گئے ہیں،بلکہ متعددپہلوایسے ہیں جہاں عورت کومرد پرفوقیت حاصل ہے۔
عورتوں کے جوحقوق حاصل ہیں ان کاتذکرہ تفصیلی تحریرکامتقاضی ہے،خلاصہ کے طورپر چندباتوں کاذکرکرنامفید ہوگا:
عبادات میں مردوعورت دونوں برابرہیں:من عمل صالحا من ذکراو انثی وہومومن فلنحینہ حیوۃ طیبۃ ولنجزینہم اجرہم باحسن ماکانوا یعملون ۔(سورہ نحل:۹۷)
ترجمہ:مردہویاعورت اگر مسلمان ہوتو جوبھی نیک عمل کرے گا ہم اس کی زندگی اچھی طرح بسرکرائیں گے،اور ہم ان کو اچھے کاموں کا اجرضرور عطافرمائیں گے۔
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب نے اس آیت سے یہ نکتہ اخذکیاگیاہے کہ عورت کواپنی ذات اور اپنے مال میں خودمختاری حاصل ہے،جب تک کہ اس سے شریعت کا کوئی حکم نہ ٹوٹ جائے۔(آسان تفسیر قرآن مجید)
جان ومال،عزوآبروکاتحفظ ،ایک دوسرے کے جذبات کالحاظ میں مردعورت دونوں کویکساں درجہ حاصل ہے:
ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف ۔(سورہ بقرہ:۲۲۸)
اور جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ایسے ہی مردوں پر عورتوں کے حقوق بھی ہیں۔
عورت کومعاشی جدوجہدکی آزادی حاصل ہے،وہ تجارت کرسکتی ہے،ملازمت کرسکتی ہے،ہبہ اور وصیت کرسکتی ہے۔
معاشرتی آزادی وخودمختارکایہ حال ہے کہ بالغ لڑکی کو نکاح کافیصلہ کرنے کااختیارہے،باپ بھی لڑکی کی مرضی پوچھے بغیراس کی شادی نہیں کرسکتا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تنکح الایم حتی تستامرولاتنکح البکرحتی تستاذن۔(صحیح البخاری)
مردکی طرح عورت بھی میراث کی حقدارہوتی ہے:
للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء مماترک الوالدان والاقربون مماقل منہ او کثر نصیبامفروضا۔ (سورہ نساء:۷)
والدین اور قرابت داروں نے جوکچھ چھوڑاہے اس میں مردوں کابھی حصہ ہے اور والدین اور قرابت داروں کے متروکہ میں عورتوں کابھی حصہ ہے،چاہے وہ تھوڑاہویازیادہ،یہ مقررکیاہواہے۔
اسلام میں عورت کایہ مقام ہے کہ عورت کی تمام ذمہ داری مردکے سرہے،نابالغی کے زمانہ میں اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہے،شادی کے بعد شوہرکے ذمہ ،شوہرکے انتقال کی صورت میں بچوں کے ذمہ ،اور بچے نہ ہوں توقریبی رشتہ داروں کے ذمہ ہے،عورت پرخوداپنی ذمہ داری بھی نہیں ہے،اس کے باوجودانہیں معاشی آزادی حاصل ہے۔
اسلام میں جہاں عورتوں کوہرشعبہ ہائے زندگی میں حقوق دئے گئے ہیں وہیں عورت کی فطرت کالحاظ کرتے ہوئے حجاب اور عفت وعصمت کے عنوان سے اسے تحفظ بھی فراہم کیاہے۔
پردے کے حدود دراصل عورت کی خصوصی حیثیت یعنی اضافی پروٹوکال ہے،جس پر عورت کوفخرکرناچاہئے۔
اسلام نے عورتوں کوآزدی اور خودمختاری عطاکرکے سماج میں ایک انقلاب برپاکردیا،جس کانتیجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مردصحابہ علوم سیکھنے کو فخرمحسوس کرتے تھے،حضرت شفابنت عدویہ کوبازارکے مسائل پراتنی مہارت رکھتی تھیں کہ حضرت عمرؓ نے انہیں بازارکانگران (انسپکٹر)بنایاتھا،فاطمہ الفہری نے جامعہ قرطبہ کی بنیاد ڈالی،تفسیر وحدیث اور دیگرعلوم کی شاندار خدمت کی،غرض مسلم خواتین نے علمی وسماجی میدان میں جوکرداراداکیاہے وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔
اسلام کے عطاکردہ حقوق کاموازنہ مغرب کے عطاکردہ حقوق یامتمدن معاشرہ میں عورت کوملنے والے حقوق سے کیاجائے تو ہرمنصف آدمی یہی کہے گاکہ اسلام میں عورتوں کوجس مقام تک پہونچایاہے اوراسلام جس طرح کامتوازن معاشرہ تیارکرتا ہے،اس کی نظیرنہیں مل سکتی۔
لیکن اسلام کی اس روشن تاریخ کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کووہ حقوق نہیں ملے جوانہیں مذہب نے عطاکیاتھا،روایات کے نام پر یاعورتوں کے تحفظ کے نام پر انہیں وہ خودمختاری نہیں ملی جن کی وہ حقدارتھیں،اس طرح عورتوں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کچھ زیادتیاںبھی ہوئی ہی،اورآج بھی ہورہی ہیں،مگراس سے یہ نتیجہ اخذکرناصحیح نہیں ہوگاکہ ہرخاندان میں اسی طرح ہورہاہے،کیونکہ ہرجگہ ایساہوتاتومسلم خواتین کی تاریخ اتنی روشن نہیں ہوتی۔
عورتوں کوان کے حقوق سے محروم کرنے میں عورت کے حدودکی تعبیرمیں بیانیہ کابھی بڑادخل ہے،بعض اہل علم نے عورتوں کے تحفظ ،فتنہ کے اندیشوں کو بنیادبناکرعورتوں کی سرگرمیوں کواتنامحدودکردیاکہ ان تحریروں کے نتیجہ میں مسلم عورت کی جوتصویربنتی ہے وہ اسلام کے بنیادی اصول اور اسلام کی تاریخ سے کہیں میل نہیں کھاتی۔
عورت کااصل میدان نسل انسانی کی تربیت ہے،مگراسے شرعی حدودمیں رہتے ہوئے معاشی جدوجہد کی آزادی ہے، بالغ لڑکی کونکاح کے بارے میں اپنے فیصلے کااختیارہے،عورت کومیراث میں مردکی طرح حقداربنایاگیاہے،اس طرح کے متعدد مسائل ہیں جہاں شریعت میں واضح ہدایات موجود ہونے کے باجودعورتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔
مذکورہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم عورت کوپہلے سے ہی خودمختاری حاصل ہے،انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی وہ حقدارہیں،پھرمسلم عورتوں کوخودمختاری کاسبق کیوں پڑھایاجاتاہے،مسلم معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کی دہائی کیوں دی جاتی ہے؟ایک مسلم ملک میں اس طرح کے پروگرام کامقصد کیاہے؟
اگر کانفرنس کا مقصد مغرب کے تصورآزدی کوپیش کرناہے،مذہب کے مقابلہ میں فیمینزم کورکھنااور اوراسے پرکشش انداز میں پیش کرناہے،تواس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہے،لیکن اگرمقصد عورت کے حقوق کو اجاگر کرنا ہے، عالمی بیانیہ کاجواب دیناہے،سماجی وتعلیمی ترقی کافروغ ہے،عورت پرہونے مظالم مثلا گھریلوتشدد،جبری شادی،تعلیم سے محرومی اور وراثت سے محروم کواجاگرکرناہے،یعنی اسلامی فکراور اسلام کے اعتدال کوفروغ دیناہے،تواس کا استقبال ہوناچاہئے۔
عام طور پر اس طرح کی سرگرمیوں کے پس پردہ مسلم عورت کوآزادی اور خودمختاری کے نام پر مذہب سے بیزار کرنے کا مقصد کارفرماہوتاہے،تاکہ وہ بھی مذہب کے طوق کواتارپھینکے، اور مغرب کی طرح مشرق کی خواتین بھی دینی وسماجی بندھوںسے آزادہوکر اپنے وجودکوثابت کریں۔
مغرب عورت کی مطلق آزادی کاقائل اور داعی بلکہ علمبردارہے،اس آزادی کے نتائج سامنے ہیں،اس کے برخلاف اسلام عورت کوایک محدوددائرہ میں آزادی عطاکرتاہے،اس میں عورت کی عزت بھی ہے،اور اس کاوقاربھی ،ساتھ ہی عورت کے اصل میدان کی تعیین بھی ہے،اور اولین فرائض کی جانب توجہ بھی ۔
افسوس کہ بسااوقات بعض مسلم قلمکار بھی اس معاشرتی نظام کوپدرشاہی نظام سے تعبیرکرتی ہیںاوراسے عارسمجھتی ہیں، حالانکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ عورت کے شتربے مہاررہنے اور تنہازندگی کے سردوگرم کوجھیلنے سے بہترہے کہ وہ کسی کی ذمہ داری میں ہو،اورخاندان میں مرد کی مرکزیت ہو ، محدوددائرہ میں آزادی وخودمختاراس آزادی سے بدرجہ بہترہے جہاں اس کاامتیازی وصف کھوجائے اوروہ عام انسان کی طرح معاشی دوڑبھاگ کاحصہ بن جائے۔
وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کاسوزدروں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کا نظام تکافل یاشرعی انشورنس
منورسلطان ندوی
انسانی زندگی خطرات سے پرہے،کوئی فردکبھی بھی کسی حادثہ سے دوچارہوسکتاہے،زندگی میں جس قدر سہولتیں بڑھ رہی ہیں اسی قدر حادثات میں اضافہ ہوتا جارہاہے، کبھی نقصان جسمانی ہوتاہے،مثلا بیماری،کبھی مادی مثلا کاروبار میں نقصان کاہونا،کبھی ناگہانی آفات سے انسان مبتلاہوتاہے،مثلا سیلاب، زلزلہ،موجودہ وقت میں بہت سے امراض ایسے ہیں کہ عام انسان نے لئے اس کے اخراجات کو برداشت کرنا مشکل ہوتاہے،صحت کے مسائل دن بدن بڑھتے جارہے ہیں،ان خطرات اور حادثات کی تلافی کرنے کو رسک مینجمنٹ کہاجاتاہے۔
رسک مینجمنٹ کا نظام ہردور میں رہاہے،اسلام نے اخوت کابہترین تصورپیش کیا،اورانصارومہاجرین صحابہ نے اس کوجس طرح برتاہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی،زکوۃ اور صدقہ کانظام اسی لئے ہے کہ سماج میں اقتصادی ناہمواری کو ختم یاکم کیاجائے ،غریبوں کی مدد،ضرورت مندوں کی حاجت روائی ،پریشان حال افراد کو پریشانی سے نجات دلانااسلامی کی بنیادی تعلیمات ہیں،کوئی شخص مصیبت میں ہے،ناگہانی حادثہ سے دوچار ہے یاناقابل برداشت مسائل کااسے سامنا ہے تواسے تنہانہیں چھوڑاجائے گا، مسلم معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ مصیبت سے دوچار اور مسائل سے پریشان فرد کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اس پریشانی سے نجات پاسکے،شرعی تعبیر میں اس نظام کو تکافل کہاجاتاہے۔
تکافل کالفظ کفل سے بناہے،جس کاایک معنی ضمانت لینااور تربیت وپرورش کرنابھی ہے،قرآن مجید میں اس معنی میں یہ لفظ استعمال ہواہے:
فقال اکفلنیہا وعزنی فی الخطاب۔(سورہ ص:۲۳)اب یہ کہتاہے کہ وہ بھی مجھے دے دواور بات چیت میں مجھے دباتاہے۔
سورہ آل عمران میں ہے:وکفلہازکریا(آل عمران:۳۷)اور اس کی زکریانے کفالت کی۔
احادیث میں کفل سے مشتق الفاظ آئے ہیں،حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں نمازجنازہ پڑھانے کے لئے لائے گئے،آپ ﷺ نے فرمایا:آپ کے اس ساتھی پر قرض ہے؟ابوقتادہ نے کہا:انااکفل بہ (میں اس کا ضامن ہوں)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قرض اداکرنے کا؟انہوں نے کہاہاں قرض اداکرنے کا۔(مسند احمد،ج۳۷،ص:۲۶۴))
اس بنیادی مفہوم کے پس منظر میں تکافل کالفظ ایک اصطلاح کے طورپرمروج ہے جس کے معنی ہیں ایک دوسرے کاضامن بننا،یاباہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا۔
معجم لغۃ الفقہاء میں تکافل کامفہوم اس طرح بیان کیاگیاہے:
کفالت،نفقہ اور اعانت کاتبادلہ ،یعنی خیال رکھنااور برداشت کرنااور اسی سے تکافل المسلمین ہے،یعنی مسلمانوں کاایک دوسرے کا خیرخواہ ہونااور خرچ کے ذریعہ خیال رکھنا۔(ص:۱۴۲)
سیدقطب شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
بلاشبہ اجتماعی تکافل ہی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے،اور مسلمانوں کی جماعت پابند ہے کہ وہ اپنے کمزوروں کے مفادات کا خیال رکھے۔(فی ظلال القرآن،ج۱،ص:۲۱۲)
اسلام میں تکافل کی بنیاد باہمی تعاون،باہمی امداداور تبرع پرقائم ہے،قرآن مجیداور احادیث میں اس سلسلے میں ترغیبی ہدایات موجود ہیں،ارشاد باری ہے:
وتعاونوا علی البروالتقوی (مائدہ:۲)نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون کرو
انماالمومنون اخوۃ (حجرات:۱۰)مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
والمومنون والمومنت بعضہم اولیاء بعض ۔(مائدہ:۵۱)مومن مرد اور مومن عورت ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کایہ مزاج بنایاہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کا دکھ دیکھ نہیں سکتے،کوئی مسلمان تکلیف میںہوتوپوری دنیاکومسلمانوں کو بیچین ہوجاناچاہئے جب تک کہ اس کی پریشانی ختم نہ ہوجائے،رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک جسدکی طرح قراردیاکہ جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہوتوپوراجسم اسے محسوس کرتاہے،آپ ﷺ نے فرمایا:
تری المومنین فی تراحہمہم وتوادہم وتعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:۵۶۶۵)
تم مسلمانوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے،محبت کرنے،اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھوگے ،اگر ایک عضو بیمار ہوگاتوساراجسم بخار اور بیداری میں اس کے ساتھ ہوگا۔
المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ الہ یوم القیامۃ(صحیح بخاری،حدیث نمبر:۶۵۵۱،صحیح مسلم،حدیث نمبر:۲۵۸۰)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے،اورنہ اسے دشمن کے حوالہ کرتاہے،جوشخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتاہے اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرے گا،اور جوکسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کرے گااللہ تعالی قیامت کے دن اس کی تکالیف میں سے ایک تکلیف کو دور کرے گا،اور جوکسی مسلمان کے عیب کوچھپائے گااللہ تعالی قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔
المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولایظلمہ ولایخذلہ ولایکذبہ ولایحقرہ۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:۲۵۶۴)
مسلمان مسلمان کابھائی ہے،وہ نہ اس پر ظلم کرتاہے نہ اسے بے سہارا چھوڑتاہے،نہ اسے جھوٹ بولتاہے،اور نہ اسے حقیر سمجھتاہے۔
حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفرمیں تھے،اچانک ایک شخص اپنی سواری کے ساتھ آیااور دائیں بائیں کچھ دیکھنے لگا،گویاوہ کچھ تلاش کررہے ہوں،یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
من کان معہ فضل ظہر فلیعد بہ من لا ظہر لہ ومن کان لہ فضل من زاد فلیعد بہ علی من لا زاد لہ ۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:۱۷۲۸)
جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس کو دے دے جس کے پاس سوار نہیں ہے،اور جس کے پاس زائد کھانایاغلہ ہووہ اس کودے دے جس کے پاس غلہ نہ ہو۔
مذکورہ بالاآیات واحادیث سے واضح ہوتاہے کہ ہرمسلمان پر دوسرے کمزوروپریشان حال مسلمان کی مددکرنالازم ہے،سماج کے خوشحال طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمزور طبقہ ،محتاج اور معذورافرادکی ذمہ داری قبول کرے۔
باہمی مدداور تعاون کی ایک شکل انفرادی ہے کہ ہرفرداپنی صلاحیت اور طاقت کے لحاظ سے دوسرے ضرورت مندمسلمان کی مددکرے،ہرعلاقے کے مسلمانوں میں یہ مزاج موجودہے،اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اجتماعی طورپرایسانظام بنایاجائے۔
معاشی اعتبارسے تمام افراد برابرنہیں ہوسکتے ،تفاوت باقی رہے گایہ ایک فطری امر ہے،مگرسماج کے تمام افرادکی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہئے،انہی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے زکوۃ،صدقات اور عشر کانظام ہے،جس کامقصد سماج کے کمزوراور معاشی بدحالی کے شکارافراد کو اوپرلاناہے،سید قطب شہید ؒ نے لکھاہے کہ زکوۃ اسلامی نظام تکافل کی شاخوں میں سے ایک اہم شاخ ہے۔(فی ظلال القرآن ،ج۴،ص:۴۱)
زکوۃ وصدقات اور عشرایک مستقل نظام ہے،اس کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کی غریب کی گئی ہے،یہ عام حکم ہے،اسی طرح ہنگامی حالات میں انفاق کاحکم الگ ہے۔
شریعت میں تکافل کی ایک اور نظیر ملتی ہے،غیرادادی طورپرقتل کی صورت میں دیت واجب ہوتی ہے،اور یہ دیت قاتل کے ساتھ اس کے عاقلہ (افراد خاندان مثلا بھائی،چچا،اولاد وغیرہ)پربھی واجب ہوتی ہے،اس کامقصد یہی ہے کہ دیت کی رقم کاتنہااداکرنابہت مشکل ہے،لیکن خاندان افراد مل کو اس بوجھ کو بانٹ لیں گے تواس کی ادائیگی آسان ہوجائے گی،مشہورحنبلی فقیہ علامہ ابن قدامہ نے اس بارے میں بڑی اچھی بات لکھی ہے ،وہ فرماتے ہیں:
اس میں حکمت یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر ہونے والے جرائم بکثرت ہوتے ہیں،اور آدمی کی دیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے،لہذا اس کو اکیلے خطاکارکے مال میں واجب قراردینا اس پراس کے مال میں ناقابل برداشت ذمہ داری ڈالنے کاباعث ہے،چنانچہ حکمت کاتقاضایہ ہے کہ قاتل کابوجھ ہلکاکرنے کے لئے بطور ہمدردی واعانت اس کی دیت عاقلہ پربھی واجب قراردی جائے۔(المغنی ،ج۱۲،ص:۲۱)
شریعت میں امدادوتعاون کے احکامات ،انفاق کی ترغیبات اور دیت کے مذکورہ نظام کوسامنے رکھ کر باہمی تعاون کی ایک منظم شکل بنائی گئی ہے،جسے تعاون پرمبنی انشورنس یامیچول انشورنس کہاجاتاہے،یہ اسلامی نظام تکافل کی ایک بہترین شکل بھی ہے،اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک پیشہ ،ایک ادارہ ہ سے وابستہ افراد باہمی رضامندی سے یہ طے کرلیں کہ ہرفردماہانہ ایک متعین رقم جمع کرے گا،اورجب کبھی ان میں سے کسی کوکوئی حادثہ پیش آئے یافلاں فلاں مسئلہ سے دوچارہوتواس اجتماعی فنڈسے اس کی اس مقدارمیں مدد کی جائے گی۔
مثال کے طور پرایک علاقہ کے آٹوڈرائیوراس طرح کی صورت اختیارکرسکتے ہیں کہ ہرماہ ایک متعین رقم جمع کریں،اور یہ طے ہوکہ جب کبھی ان کی ٹیم کے کسی ڈرائیورکایااس کی گاڑی کااکسیڈینٹ ہوگایاڈرائیورکسی ناگہانی حادثہ سے چارہوگا، تونہیں اتنی رقم دی جائے گی تاکہ اس کی ناقابل برداشت مصیبت قابل برداشت بن جائے۔
ایک کمپنی یاایک ادارہ کے عملہ کے درمیان بھی اس طرح باہمی تعاون کانظام بن سکتاہے،اس نظام میں ہرفردتبرع کی نیت سے رقم کرتاہے،لہذا ضرورت مندافراد طے شدہ اصول کے تحت رقم لے سکتے ہیں ،اور جوافراد حادثہ سے محفوظ رہے وہ رقم واپس لینے کے حقداربھی نہیں ہوں گے،کیونکہ انہوں نے تبرع کی نیت سے رقم جمع کی تھی،بلکہ وہ ثواب کے حقدار ہوں گے۔
معاصرفقہاء اور فقہی اکیڈیموں نے اس کو جائزقراردیاہے،حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب تحریرفرماتے ہیں:
انشورنس کی پہلی صورت جوباہمی تعاون پر مبنی ہے،تمام ہی اہل علم کے نزدیک جائزہے،اس میںنفع کمانامقصود نہیں ہوتاہے بلکہ افرادواشخاص کا ایک گروہ طے شدہ خطرہ پیش آنے کی صورت میں مصیبت زدہ شخص کی مدد کرتاہے،اس لئے اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں،اس میںایک گونہ ’’غرر ‘‘ضرور پایاجاتاہے کہ نہ معلوم اس اعانت کافائدہ کسے پہونچے گا،تاہم یہ اس لئے مضرنہیں کہ غرران معاملات میں ممنوع ہے جن میں دونوں طرف سے عوض کاتبادلہ ہو،تبرعات میں غرر سے کوئی نقصان نہیں،اور انشورنس کی یہ صورت اسی قبیل کی ہے۔(قاموس الفقہ ،ج۲،ص:۳۹۶)
مروجہ تجارتی انشورنس کی شکلیں ربوااور قمارمیں مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائزہیں،اکثرعلماء اور فقہی اکیڈمیوں کایہی فیصلہ ہے،اس تناظر میںحادثات،ناگہانی مصائب اور ناقابل براشت مادی نقصانات سے بچنے کے لئے تکافل ایک متبادل حل ہے۔
مسلمانوں کے زیراہتمام چلنے کی والی تجارتی کمپنیوں میں ملازمین کے لئے،اسی طرح تعلیمی ورفاہی اداروں میں خدمت انجام دینے والے معلمین اور ملازمین کے لئے باہمی تعاون پرمبنی یہ نظام بنایاجائے تواس سے ضرورت مندوں کی ضرورت کی تکمیل کاسامان اچھے اندازمیں فراہم ہوگا،کسی پریشان حال کی پریشانی اس طرح دورہوجائے گی،باقی شرکاء پرکوئی بوجھ بھی نہیں ہوگا،اور عزت نفس بھی محفوظ رہے گی۔اس طرح کانظام ایک بڑافائدہ یہ بھی ہے کہ چند سالوں میں اس تعاونی مدمیں خطیررقم جمع ہوجاتی ہے،جوناگہانی مصائب کے وقت بہترین مداواثابت ہوسکتی ہے۔
Hello world!
Donation is Hope for Poor Childrens
A Place where Start New Life with Peace
Why organic food may be good for you
The organic food & sustainable dining for you
Learn How access to Clean Water & Food
few seconds
Your story starts from here
Ready to raise funds for idea?




